Breaking News

6/recent/ticker-posts

Beloved by Salman Episode 1

وہ زرد رنگ کی فراک میں ملبوس پھولوں کے اس باغ میں کھڑی تھی اور ایک پودے کی شاخ پر لگا پھول ہاتھ میں تھامے اسے سونگھ رہی تھی ۔ وہ مسکرا رہی تھی اور پھر پلٹی اور سارے باغ کو دیکھنے لگی ۔ باغ کی اس خوبصورتی میں اس کا حسن مزید بڑھ سا جارہا تھا۔ وہ پلٹی تو اچانک اسے باغ میں اپنی داہنی جانب سے پھولوں کے درمیان بنی پگڈنڈی پر کوئی آتا دکھائی دیا۔ سفید گھوڑے پر بیٹھا وہ شخص جس نے سرخ شیروانی اوڑھ رکھی تھی اور وہ پھولوں کے بیچ راستے پر گھوڑا دوڑاتے ہوئے اسے دیکھتے ہوئے چلا آرہا تھا۔ وہ بالکل اس کے سپنوں کے شہزادے جیسا تھا یا پھر وہ شہزادہ ہی تھا کیانکہ اس نے سر پر تاج بھی پہن رکھا تھا۔                                                                                                                                                                                          اسے دیکھتے ہی وہ مسکرائی ۔ جیسے خزاں میں کسی گل کی ہنسی سنائی دی ہو۔ جیسے ساون کی پہلی بوند نے دستک دی ہو۔ جیسے قوس قزح عیاں ہوگئی ہو، اس کے خوابوں کا شہزادہ اس کے سامنے تھا اور گھوڑا دوڑاتا ہوا اس کی طرف لپک رہا تھا۔ اپنے سپنوں کی تعبیر اس کے سامنے تھی اور وہ خیالوں کی دنیا میں غوطہ زن اس شہزادے کو تکے جارہی تھی ۔ شہزادہ بھی برق رفتاری سے اس کی طرف بڑھ رہا تھا، آن کی آن میں وہ اس تک جا پہنچا۔ اس کے قریب آکر شہزادے نے  گھوڑے کی لگام کھینچی اور گھوڑا ایک دم سے فضا میں اچھل کر رک گیا۔ شہزادے نے اسے ایک مسکان دی تو اس کے جواب میں وہ بھی مسکرائے بنا نہ رہ سکی۔                                                                                                                                                                                                          شہزادہ گھوڑے سے اترنے لگا تھا کہ اچانک اس لڑکی نے اپنے شانے پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا۔ وہ ایک دم حیرت زدہ رہ گئی اور مارے حیرت کے مڑ کر پیچھے دیکھا تو چکرا  کر رہ گئی ۔ اس کے سامنے ایک جنگلی جانور کھڑا تھا اس کے باہنی جانب پھولوں کے بیچ بنی پگڈنڈی پر ۔ وہ حیران تھی ایک جانور کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ ۔ اس نے گبھرا کر داہنی جانب شہزادے کو دیکھا اور پھر باہنی جانب اس ریچھ کو  جس نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا ۔ ریچھ نے اس کا ہاتھ تھاما تو اسے ریچھ کا چھونا برا نہ لگا بلکہ اس نے بھی اپنے دوسرے ہاتھ سے ریچھ کے دوسرے ہاتھ کو تھام لیا۔ مگر یک دم وہ چکرا گئی کیونکہ اپنے خوابوں کے شہزادے کو سامنے دیکھ کر بھی وہ ایک ریچھ کا ہاتھ تھامے کھڑی تھی۔                                                                                                                                                                                                         اس نے جھٹ سے اپنا ہاتھ ریچھ سے چھڑوایا اور شہزادے کی طرف دیکھا اور پھر جنگلی جانور کی جانب جس کی آنکھ میں ایک آنسو تھا اور پھر وہ یک دم ششد رہ گئی ۔ اس نے اپنے پیروں کو منجمد پایا وہ اس جنگلی جانور سے دور نہیں جا پارہی  تھی اور نہ ہی اس کے قدم شہزادے کی طرف بڑھ پا رہے تھے ۔۔                                                                                                                                                                                                        سپنوں کا شہزادہ اس کے سامنے تھا مگر شاید وہ اس جنگلی درندے کی محبت میں گرفتار ہوچکی تھی۔
ایک دم زور دار بادل کی گرج سے اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ زور زور سے سانس لیتی اٹھ کر بیٹھ گئی ۔
" کتنا بھیانک خواب تھا !"
وہ اپنے حواس پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی ۔ 
بادل پھر سے گرجا اور بجلی بھی چمکتی ہوئی سامنے بڑی کھڑکی سے دکھائی دی ۔ بجلی کے چمکنے سے اندھیر کمرے میں یک دم روشنی ہوگئی جو تیز ہوا سے چراغ بجھنے کے باعث تاریک ہوگیا تھا ۔
بادل کی ایک بات پھر گرج سے اس کے دل میں عجیب سا خوف پیدا ہوگیا ۔ اس نے لمبی سانس لی اور اپنے پلنگ سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی ۔ اندھیرے میں اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کس طرف جائے ۔ پھر وہ ادھر ادھر ہاتھ ہلانے لگی ۔ یہ دیکھنے کے لیے کمرے میں اسے کچھ سجھائی دیتا ہے یا نہیں ۔ اردگرد کے چیزوں کو چھونے سے اسے احساس ہوگیا کہ چراغ کہاں ہے ؟
خدا نے آنکھوں کو اندھیرے میں دیکھنے کی بھی طاقت دی ہے ۔ دھیما دھیما ضرور مگر سجھائی ضرور دیتا ہے ۔ 
اس نے چراغ پکڑا اور پھر اسے جلانے لگی ۔ چراغ جلانے میں کچھ دیا سلائیاں ضائع ہوگئیں کیونکہ ہوا بہت تیز چل رہی تھی ۔ چراغ جلا تو اردگرد روشنی بکھر گئی ۔ اور اس کا چہرہ بھی اس روشنی میں نظر آنے لگا ۔ 
حسین دودھیا چہرہ اور روشن آنکھیں ۔ جن کے بیچ میں پہاڑی ٹیلے جیسی ابھری ہوئی ناک جو اس کی خوبصورتی کو آسمان تک پہنچا رہی تھی ۔ 
اس نے چراغ ہاتھ میں تھام کر آگے کی جانب کمرے میں کیا تو اس کے لمبے بال بھی دکھائی دیے جن کا سایہ پچھلی دیوار پر بن رہا تھا ۔ بجلی پھر سے چمکی اور وہ بال حیرت انگیز طور پر خوفناک دکھائی دینے لگے ۔ اس نے کمرے کی جانب چراغ کا رخ کیا تاکہ راستہ دیکھ سکے ۔
قدیم تہذیب و تمدن سے آراستہ وہ کمرہ بہت ہی عجیب منظر پیش کررہا تھا ۔ ایک طرف پلنگ پڑا تھا جس کے سامنے ایک بڑی کھڑکی جو چھت سے نیچے کمرے کے فرش تک جاتی تھی ۔ کمرے میں ایک الماری تھی جس مےں کچھ کتابیں تھیں اور نچلے خانے میں کچھ تصویریں جو چراغ کی روشنی میں دھندلی سی دکھائی دے رہی تھیں ۔ اور اس الماری کے پاس لکڑی کی ایک کرسی بھی تھی ۔ اس نے چراغ کا رخ کھڑکی کی جانب کیا اور پھر اس طرف بڑھ گئی ۔ وہ کھڑکی ایک دروازے جیسی تھی کیونکہ اس کھڑکی کے باہر ہی چھوٹی سے بالکونی تھی ۔ اس نے اس بڑی کھڑکی نما دروازے کو کھولا ۔ 
چراغ کے روشنی نے بالکونی کو روشن کردیا ۔ وہ چھوٹی سی بالکونی تھی جو اوپر سے ڈھکی ہوئی تھی اور بارش کا پانی بھی نیچے نہیں کررہا تھا ۔ چراغ کی روشنی نے باہر آسمان کا منظر بھی اسے دکھا دیا ۔ 
برستی بارش ۔ تاریک آسمان ۔۔ چمکتی بجلی اور پھر گرجتا بادل ۔۔ بہت بھیانک منظر تھا ۔
اتنی بھیانک رات میں وہ ایک حسین خواب دیکھ رہی تھی جو بعد میں ایک عجیب موڑ پر رک گیا اور بادل کی گرج سے اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔
" ایک دن میرے سپنوں کا شہزادہ ضرور آئے گا اور مجھے اس تاریک حویلی سے نکال کر لے جائے گا "
اس نے اپنے خواب کو یاد کیا اور پھر بالکونی سے کھڑی تاریک آسمان کو دیکھنے لگی ۔ 
اب اسے نیند نہیں آرہی تھی اسی لیے آج کی رات اسے اب بالکونی پر کھڑے ہوکر گزارنی تھی ۔
اس نے بالکونی سے نیچے باغیچے کی جانب چراغ کو گھمایا تاکہ نیچے کا منظر دیکھ سکے ۔
چراغ کی ہلکی سی روشنی نے سبزے کو روشن کردیا ۔ سارا سبزہ بارش سے بھیگا ہوا تھا اور یوں یہ خوبصورت حویلی رات کے اس پہر کسی بھیانک گھر کا ماحول پیش کررہی تھی ۔ 
اس کا کمرہ اس بڑی حویلی کی دوسری منزل پر تھا اور بدقسمتی سے دوسری منزل پر صرف اسی کا کمرہ تھا ۔ 
ایک دم بارش کی رفتار کم ہوگئی ۔ اسے تھوڑا آرام حاصل ہوا ۔ بارش کی تیز آواز اس کے ذہن کے کمرے میں شور برپا کررہی تھی اور اس کے دماغ میں آتی سوچوں کو سر نکالنے ہی نہیں دے رہی تھی ۔ 
اس نے اپنا ہاتھ باہر کی جانب بڑھایا اور بارش کے قطروں کا لمس محسوس کرنے لگی ۔
پھر وہ مسکرائی اور ایک لوری گانے لگی ۔
ستاروں کی چمک
پھولوں کی مہک
ہوا کے سنگ
فطرت کا ہر رنگ
دیتا ہے ہم کو مسکان
پھولوں کو کھکھلاہٹ
پرندوں کو چہچہاہٹ
درختوں کو تازگی
اور دنیا کو سادگی
دنیا بنے جاتی امن کی پہچان
پھر طوفان آتے ہیں
بلائیں ساتھ لاتے ہیں
چھن جاتی ہے مہک
بجھ جاتی ہے چمک
امن زمیں کا پوتا ہے برباد
خواب سارے چکنا چور
کرچی کرچی سب دستور
چونچالی وہ ہوا کی
تازگی وہ فضا کی
چھین کر لے گیا طوفان
یہ اس کی پسندیدہ لوری تھی جو اس کی ماں اسے سنایا کرتی تھی جب وہ چھوٹی تھی ۔ اور تب اسے اس لوری کی سمجھ نہیں آتی تھی اور اکثر وہ ماں سے پوچھتی 
" ماں اس گیت کا کیا مطلب ہے ؟"
اور ماں مسکرا کر کہتی 
'' صوفیا اس لوری میں زندگی کا راز چھپا ہے جب تم بڑی ہوگی تمہیں احساس ہوجایے گا ۔
ایک دن یہی لوری تمہاری ہمت بنے گی "
صوفیا ۔۔ 
یہی اس کا نام تھا ۔
پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ۔ اسے اس لوری کے الفاظ کی سمجھ آتی گئی ۔ اسے سمجھ آگئی کہ اس کی ماں سچ کہتی تھی ۔ اور یہی وجہ تھی کہ اب ماں تو خدا کے پاس چلی گئی تھی اور سب یہی لوری اس کی ہمت تھی ۔ 
لوری گنگناتے ہوئے وہ ماضی کے پنوں کو بھی کھولنے لگی ۔۔
وہ چھ سال کی تھی جب اس کی ماں الیزا اس کو چھوڑ کر اس دنیا سے چلی گئی تھی اور تب اس کے باپ مسٹر ماؤنٹ مین نے دوسری شادی کر لی کیونکہ ان کے نزدیک ان کی بیٹی کو ماں کی بہت ضرورت ہے ۔ اسی لیے ان کا بیاہ ایک بیوہ سے ہوگیا جس کا نام ڈریزیلا تھا ۔ اور یوں ڈریزیلا لیڈی ماؤنٹ مین بن گئی ۔ ڈریزیلا کی اپنی دو بیٹیاں بھی تھیں جو کہ صوفیا کی تقریباً ہم عمر تھیں ۔ ایک کا نام ادا تھا اور دوسری کا نام آلیا تھا ۔ لیڈی ماؤنٹ مین اول تو صوفیا سے بہت پیار کرتی رہی مگر جونہی صوفیا کے والد کو کہ تاجر تھے اور تجارت کے لیے دوسرے شہر جاتے رہتے تھے ۔ جونہی وہ جاتے تو صوفیا کے ساتھ ڈریزیلا کا رویہ بہت برا ہو جاتا ۔ وہ صوفیا سے ساری حویلی کے کام کرواتی اور یوں صوفیا اپنی ہی حویلی میں ملازمہ بن جاتی ۔۔
بچپن سے یہی رکھ سہتے ہوئے صوفیا اب بیس سال کی ہوچکی تھی ۔   
اس کی آنکھ سے ایک آنسو موتی کی طرف نکلا اور گال سے ہوتا ہوا چراغ میں جا گرا اور چراغ بجھ گیا ۔۔
ماضی میں کھوئی صوفیا بالکونی پر بیٹھی کب نیند کی وادی میں چلی گئی پتا ہے نہ چلا ۔۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
بارش رک گئی تھی اور بارش کے بعد موسم بہت سہانا ہوگیا تھا ۔ ہر طرف منظر اجلا سا لگ رہا تھا ۔ آسمان زمین سب کچھ ایک نیا نظارا پیش کررہا تھا ۔ بارش کی یہی خاص بات سب کو پسند ہوتی ہے کہ یہ ماحول کو نیا روپ رہتی ہے ۔ اور پھر لوگ بارش کے بعد کے سہانے مناظر سے لطف اٹھاتے ہیں اسی لیے ہر کسی کی پسندیدہ ہوتی ہے بارش ۔ صوفیا بھی اپنی سہیلی میری کے ساتھ بارش کے بعد کا منظر دیکھنے اور اس نظارے لطف اٹھانے باغ میں آگئی تھی ۔
" کتنا خوبصورت نظارہ ہے !"
صوفیا پھولوں کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔ باغ کا موسم بہت خوبصورت تھا اور نکھرے دن نے ہر چیز کو نکھار دیا تھا ۔ ہر طرف رنگ برنگے پھولوں کی حکومت تھی ۔ 
پھر وہ دونوں ان رنگ برنگے پھولوں کو ہاتھ میں پکڑی ٹوکری میں ڈالنے لگیں ۔ 
صوفیا رنگ برنگے پھولوں کو ٹوکری میں ڈالنے لگی اور ساتھ ساتھ لوری گنگنانے لگی ۔
ستاروں کی چمک
پھولوں کی مہک
ہوا کے سنگ
فطرت کا ہر رنگ
دیتا ہے ہم کو مسکان
پھولوں کو کھکھلاہٹ
پرندوں کو چہچہاہٹ
درختوں کو تازگی
اور دنیا کو سادگی
دنیا بنے جاتی امن کی پہچان
پھر طوفان آتے ہیں
بلائیں ساتھ لاتے ہیں
چھن جاتی ہے مہک
بجھ جاتی ہے چمک
امن زمیں کا پوتا ہے برباد
خواب سارے چکنا چور
کرچی کرچی سب دستور
چونچالی وہ ہوا کی
تازگی وہ فضا کی
چھین کر لے گیا طوفان
" تمہیں پتا ہے میری آج میرے پاپا نے آنا ہے "
صوفیا نے پھولوں کی ٹوکری زمیں پر رکھی اور زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی ۔ میری نے بھی برابر میں ٹوکری رکھی اور اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی ۔
" ہاں جانتی ہوں اور یہ پھول تمہارے بابا کے لیے ہیں "
میری نے مسکرا کر کہا 
" کل ہی خبر ملی تھی کہ بابا کا بحری جہاز آج ساحل پر آئے گا اور مجھے امید ہے آج رات تک میرے بابا گھر آجائیں گے "
صوفیا مسکرائی 
" خدا کرے تمہارے بابا بحفاظت گھر آجائیں "
میری مسکرائی 
" اب چلو گھر چلتے ہیں مما جاگ گئی ہوں گی اور اگر میں وقت پر گھر نہ پہنچی تو وہ غصہ ہوں گی "
صوفیا نے کہا تو میری نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر وہ دونوں اٹھ کر گھر کی جانب روانہ ہوگئیں ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
بحری جہاز اپنی روانی میں سمندر میں تیر رہا تھا اور سمندر بھی خوبصورت لہریں بکھیرتا ہوا اس بحری جہاز کو اس کی منزل تک لے جانے میں معاون ثابت ہورہا تھا ۔ 
" ہم جلد ہی ساحل تک پہنچنے والے ہیں " 
کسی نے نقارہ بجا کر بحری جہاز میں اعلان کیا تو تمام لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ سب اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے بہت بے تاب تھے ۔ 
مگر اچانک سمندر میں لہریں زور پکڑنے لگیں ۔ اور رفتہ رفتہ یہ لہریں ایک طوفان کا روپ دھار گئیں ۔ ایک دم سے موسلا دھار بارشوں شروع ہو گئی ۔ سب لوگ خوفزدہ ہوگئے اور دعائیں کرنے لگے ۔ جہاز سب کپتان کے بس میں نہیں رہا تھا اور جہاز طوفان کے دوش پر خود ہے چلنے لگا ۔ سب لوگ خوفزدہ ہوچکے تھے اور خدا سے دعائیں کرنے لگے ۔
جاری ہے 


Post a Comment

0 Comments