خوشبوئیں اور آرزوئیں
لمحہ بھر کی ہوتی مہمان
پھر ہوائیں تیز روئیں
زخموں کی کرتی بھرمار
زندگی مانو جیسے ایک
ناچتی ہوئی کٹھ پتلی
فضا میں اڑتی ہوئی
جیسے ہری تتلی
ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا فضا کو چیرتا ہوا اس چھوٹے سے باغ کی طرف بڑھ رہا تھا اور اس جھونکے پر سوار ایک ہری تتلی بھی اس چھوٹے سے باغیچے میں سرایت کررہی تھی ۔ خوبصورت پھولوں سے لدا وہ باغیچہ بہت ہی خوبصورت منظر پیش کررہا تھا ۔ کہیں گلاب اپنی چونچالی دکھا رہا تھا اور کہیں سبز پتے اپنے ہونے کا ثبوت دے رہے تھے۔ موسم سرما کی آمد آمد تھی اور ایسے میں باد خزاں کے باعث کچھ پودے اور پتے زمین پر بھی گرے دکھائی دے رہے تھے ۔ موسم سرما کا آغاز تھا اسی لیے دھوپ بھی نہیں تھی جو منظر کو بہت خوبصورت بنا رہی تھی ۔ تتلی نے ہوا کے جھونکے کا ساتھ چھوڑا اور ایک پھول پر جا کر قیام کیا اور پھر پھول کا رس چوسنے لگی ۔ باغ میں تتلیاں لمحہ بھر کی مہمان ہوتی ہیں ۔ رس چوستی ہیں اور چلی جاتی ہیں ۔ تتلی نے بھی رس چوسا اور پھر دوبارہ ہوا کے جھونکے پہ سوار ہو گئی ۔ اڑتے ہوئے وہ اس کھڑکی کے پاس سے بھی گزری جہاں وہ بیٹھی اس خوبصورت تتلی کا اپنی نظروں سے تعاقب کررہی تھی اور ڈائری پر قلم بھی چلا رہی تھی ۔
" ہری تتلی "
وہ مسکرائی اور ڈائری پہ لکھنے لگی ۔
" زندگی تو تمہاری ہے فضا کو چیرتی ہو ، پھولوں پر بسیرا کرتی ہو اور سارا دن خوب مزے کرتی ہو "
وہ مسکرائی پھر دور جاتی تتلی کو دیکھنے لگی ۔
" کتنی خوبصورت لگتی ہو تم !
جیسے خدا نے ساری خوبصورتی تمہارے اندر سمو دی ہو ۔ "
تتلی اب فضا کی حدوں کو چھو چکی تھی اور اس کی نظروں کی حدوں سے کہیں دور جاچکی تھی ۔
وہ مسکرائی اور ڈائری بند کرکے کھڑی ہوگئی اور کھڑکی سے باغ کو دیکھنے لگی ۔ اس نے سر اٹھایا تو اس کا خوبصورت چہرہ دکھائی دیا ۔
چھوٹی چھوٹی سی پیاری آنکھیں جن کے نیچے چھوٹا ترشا ناک جو اس کی شخصیت کو مزید سنوار رہا تھا اور پھر اس کے نیچے اس کے ماند جبل ہونٹ جو اس کی گلابی گالوں کے ساتھ مل کر چہرے کے حسن کو سنوار رہے تھے اور پھر لمبے بال جو اتنے سیاہ تھے کہ رات کی سیاہی کو بھی مات دے دیں ۔ اور پھر ہری فراک میں وہ ہری تتلی کے جیسی ہی دکھائی دے رہی تھی خوبصورت بھی اور حسین بھی ۔
" سدرہ "
کسی نے اسے پکارا تو وہ مسکرائی
" سدرہ بیٹا تم تیار ہوگئی "
پھر سے آواز آئی جو غالباََ اس کی امی کی تھی
" جی امی میں تیار ہوں"
سدرہ مسکرائی اور پھر باغیچے کو ایک نظر دیکھ کر کمرے سے نکل گئی ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
" صاحب جی اللہ کے نام دس روپے کا نوٹ دے دیں "
جونہی اس نے کار کا دروازہ کھولا تو ایک بھکارن لڑکی اس کی طرف بڑھی ۔ قد و قامت سے وہ نوجوان لڑکی دکھائی دیتی تھی مگر غربت اسے بہت بوڑھا دکھا رہی تھی اور پھر اس کے چہرے پر لگی میل اور کالک جو شام کی اس سیاہی میں دفن ہورہی تھی ۔
کار سے نکلتے اس لڑکے نے جو سیاہ پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا ایک نظر اس لڑکی کو دیکھا اور پھر جیب سے پانچ سا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھایا ۔
" صاحب جی میرے پاس کھلا نہیں ہے "
اس لڑکی نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا ۔
قریب سڑک پر بنے ڈھابوں میں لگے بلبوں کی روشنی اس کی آنکھوں کو چمکا رہی تھیں۔
" یہ سب لے لو "
وہ مسکرایا اور کار کا دروازہ بند کرکے آگے بڑھ گیا ۔ شام کی سیاہی ہر طرف پھیل چکی تھی اور اسی لیے اس بھکارن کی آنکھ سے نکلنے والا شکریے کا آنسو کوئئ نہ دیکھ سکا۔ قریب ریڑھی پر چھلیاں بیچنے والے نے پھونک مار کر آگ تیز کی تو چنگاریوں کی روشنی میں اس نے اس بھکارن کے آنسو کو دیکھ لیا تھا ۔ پھر وہ بھکارن ہونٹ ہلانے لگی شاید اس امیر زادے کو دعا دے رہی تھی ۔
کار کے دوسرے دروازے سے ایک اور لڑکا نکلا جو شاید اس امیر زادے کا دوست تھا اور بھاگ کر اس کی طرف گیا ۔
" یہ کیا کر دیا تم نے زار !"
اس لڑکے نے سیاہ پینٹ کوٹ میں ملبوس زار کو پکارا تو زار نے آنکھوں سے کالا چشمہ اتارا اور اپنا چہرہ پیچھے کی طرف موڑا ۔
اس کا چہرہ کسی بھی لڑکی کو اپنی کشش میں جھکڑنے کے لیے کافی تھا ۔
روشن چہرہ جس پر بہترین انداز سے تراشی گئی مونچھیں اور پھر خط بنائی گئی داڑھی اس کے چہرے کو مزید پرکشش بنا رہی تھیں ۔ سیاہ بنے ہوئے بال اور پھر سیاہ پینٹ کوٹ یوں دکھا رہا تھا جیسے اس دنیا میں اس سے خوبصورت کوئی ہے ہی نہیں ۔
" تم جانتے ہو زار یہ سب فقیر فراڈ ہوتے ہیں اور تم نے اسے پیسے دے دیے "
زار کا دوست آگے بڑھا اور اس کی طرف متوجہ ہوا ۔
ہاتھ میں پکڑے سیگریٹ کا ایک کش لیکر زار نے سیگریٹ کو سڑک پر گرایا اور پیر سے مسل کر اپنے دوست کی طرف دیکھا
" تم نے اس کے چہرے پر لپٹی دھول اور اس کے کپڑوں سے اس کی غربت کو تو پڑھ لیا لیکن اس کی آنکھوں میں چھپی معصومیت کو نہیں جان پائے "
زار نے نظریں اچکائے اپنے دوست کی طرف دیکھا
" لیکن زار تم یہ سب کیسے کہہ سکتے ہو ۔ یہاں اس دنیا میں سب فراڈ ہے صرف فراڈ ۔ ایک ایسی بھکارن پر تم کیسے بھروسہ کرسکتے ہو جسے تم ایک پل کے لیے بھی نہیں ملے "
"کچھ لوگ صدیوں کی ملاقات میں بھی دوسرے کو نہیں جان سکتے لیکن کچھ لوگوں کو جاننے کے لیے ایک پل بھی کافی ہوتا ہے میرے دوست !
زار زبیر احمد ان لوگوں میں سے نہیں جسے لوگوں کو جاننے میں وقت لگے بلکہ زار زبیر احمد ایک پل میں جان لیتا ہے اگلا شخص کس نوعیت کا مالک ہے "
زار نے کندھے اچکائے اور آگے بڑھ گیا تو زار کا دوست حیرت سے اسے دیکھنے لگا ۔
پھر ساراس چھوٹی سی سڑک پر جانے لگا جہاں ارگرد کئی پھیری والے کھڑے دکھائی دے رہے تھے ۔ ایک طرف چھلیوں والا ریڑھی لگائے کھڑا تھا تو دوسری طرف خشک میوہ جات کی ریڑھی لگی تھی ۔ کچھ رکشے مسافروں کی آس میں کھڑے بھی دکھائی دے رہے تھے ۔ اور اسی سڑک میں سامنے کی جانب ایک شادی ہال دکھائی دےرہا تھا اور یہی تو منزل تھی زار کی ۔ آج وہ اپنے دوست ثقلین کی شادی میں شرکت کے لیے جارہا تھا ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨
" بابا یہ ٹیکسی کیوں نہیں مل رہی ؟"
سدرہ اپنے ابو اسامہ صاحب اور اپنی امی مسز اسامہ کے ساتھ فٹ پاتھ پر کھڑی تھی اور وہ لوگ ٹیکسی کا انتظار کررہے تھے ۔ شام کا وقت تھا اور سڑک پر بے پناہ رش تھا ۔ دھیرے دھیرے سردی بھی بڑھ رہی تھی ۔
" بیٹا اس وقت عموعا ٹیکسی دیر سے ملتی ہے تم پریشان نہ ہو ہم وقت پر شادی میں پہنچ جائیں گے "
اسامہ صاحب نے سدرہ کو مسکرا کر دیکھا
اچانک انہیں ایک ٹیکسی اپنے پاس آکر رکتی محسوس ہوئی
" لو آگئی ٹیکسی "
اسامہ مسکرائے اور پھر آگے بڑھ گئے اور ٹیکسی والے سے قول و قرار کرنے لگے اور پھر وہ سب ٹیکسی میں سوار ہو کر شادی کے لیے نکل گئے ۔
آج سدرہ کی پھپھو کے بیٹے ثقلین کی شادی تھی سدرہ کے ابو اسامہ صاحب کے دو بھائی اوردو بہنیں تھیں ۔ بڑی بہن پریشے بیگم جو کراچی رہتی تھیں جبکہ اسامہ صاحب اور ان کی چھوٹی بہن خولہ لاہور میں ہی رہتے تھے جبکہ ان کے بڑے بھائی ریحان صاحب بیرون ملک مقیم تھے ۔ اسامہ صاحب کے پاس رب کا دیا سب کچھ تھا ہاں البتہ دولت کی کثرت نہیں تھی لیکن وہ اپنی کم تنخواہ میں بھی کفایت شعاری کے ساتھ گزارا کرتے تھے ۔ اسامہ صاحب کے بڑے بھائی ریحان صاحب جس غیر ملک میں مقیم تھے ان کے پاس دولت کی فراوانی تھی اور اسی لیے وہ جب سے باہر گئے تھے وہیں کے ہو کر رہ گئے اور ان کے لیے اپنے خوں کے رشتوں کی بھی کوئی وقعت نہ رہی تھی۔ اسامہ صاحب کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام سدرہ تھا اور آج اسامہ صاحب اپنی فیملی کے ساتھ اپنی بہن خولہ کے بڑے بیٹے ثقلین کی شادی میں شرکت کے لیے جا رہے تھے ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨
" ماشاءاللہ کتنی بڑی ہوگئی ہے ہماری سدرہ !"
شادی کے فنکشن میں سدرہ کی ملاقات اپنی بڑی پھپھو پریشے بیگم سے ہوئی تو وہ سدرہ کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سمانے لگیں
" دو سال پہلے آئی تھی میں تب منی سی تھی میری بچی لیکن اب ماشاءاللہ !"
وہ سدرہ کی بلائیں لینے لگیں
" بس آپ کی دعائیں ہیں آپا "
مسز اسامہ نے مسکرا کر کہا
" بس بھائی اب میں یہاں آئی ہوں تو اب دیر نہیں کروں گی ۔ اپنی سدرہ اور میرے ہمایوں کا رشتہ پکا کرکے ہی جاؤں گی "
پریشے بیگم نے اپنے بھائی کو مخاطب کرکے کہا
" ارے کیا آپا ! اتنی بھی کیا جلدی ہے ؟ ابھی تو سدرہ پڑھ رہی ہے "
اسامہ صاحب کو کوئی اور بہانہ نہ ملا اور کہہ دیا
" نہ بابا بس اپنے ثقلین کی شادی ہے لگے ہاتھوں ان دونوں کا بھی رشتہ پکا کر دیتے ہیں پھر میں کراچی چلی جاؤں گی اور پھر سال بعد شادی کر لیں گے "
پریشے بیگم نے کہا تو سدرہ کی حالت ایسی تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔
" آپا ایسے رشتے بھلا جلدی میں کہاں طہ کیے جاتے ہیں ہمیں کچھ وقت دیجیے "
مسز اسامہ بھی بول پڑیں
" ارے بھابھی کیسا وقت ؟ پھپھو ہوں میں میرا کوئی حق نہیں ۔ ہمایوں بیٹا ہے میرا بھلا اس سے بہتر کوئی رشتہ ہوسکتا ہے ہماری سدرہ کے لیے "
پریشے بیگم نے مسکرا کر کہا
" چلیں آپا ہم کل تک آپ کو سوچ کر بتائیں گے "
اسامہ صاحب نے کہا
" نہیں نہیں کل سوچ کر نہیں بتاؤ گے بلکہ کل رشتہ پکا ہی ہو گا ۔"
پریشے بیگم نے منہ پھلا کر کہا
" اچھا آپا جیسے آپ کی مرضی "
اسامہ صاحب نے پریشے بیگم کی بات کی تائید کی اور سدرہ حیرت سے یہ سب دیکھتی ہی رہ گئی ۔ اس کی زبان ناطق کو قفل لگ گئے اور پیر منجمد ہو کر رہ گئے ۔ اس نے تو کبھی شادی کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا اور آج یک دم شادی کا تذکرہ سن کر وہ حیرت زدہ رہ گئی ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨
" بیٹا آپ نے شادی پر کچھ نہیں کھایا "
" نہیں بابا آپ تو جانتے ہیں مجھے اس طرح بھیڑ میں کھانا ذرا بھی اچھا نہیں لگتا اور پھر یہاں ہمارے پنجاب میں مڈل کلاس طبقے میں جب شادی میں کھانا کھلتا ہے تو لوگ ایسے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے کبھی کھانا کھایا ہی نہ ہو اور پھر ایسی صورتحال میں میں کیسے کھانا کھا سکتا تھا
زار اپنے ماما پاپا اور بہن کے ساتھ کھانے کی میز پر براجمان تھا ۔ زار کے والد زبیر احمد کا شمار لاہور شہر کے مشہور ترین کاروباری آدمیوں میں سے تھا اور اسی لیے ان کا اٹھنا بیٹھنا ایلیٹ کلاس کے لوگوں میں تھا ۔
زار آج اپنے دوست ثقلین کی شادی میں گیا تھا اور پھر وہاں سے کچھ بھی کھائے بنا گھر واپس آگیا تھا ۔ گھر آیا تو گھر میں کھانے کی میز پر اس کے گھر والے بیٹھے ہوئے تھے ۔ زبیر احمد مسز زبیر احمد اور زار کی چھوٹی بہن دانین۔
" بیٹا ثقلین کو برا لگا ہوگا "
مسز زبیر احمد نے زار کو دیکھا
" نہیں مما ثقلین جانتا ہے میری نیچر اسی لیے وہ مائنڈ نہیں کرے گا ۔ آپ پلیز میرے لیے سوپ بنوا دیں اور نگٹس بھی ۔ میں زیادہ نہیں کھاؤں گا "
زار نے اپنی امی کو دیکھا
" لیکن بیٹا تم کچھ تو کھاتے کم از کم اپنے دوست کے عزت رکھ لیتے "
زبیر احمد نے بھی مداخلت کی
" پاپا چھوڑیں نا ۔ یہ بتائیں ہمارے بھائی کی کب شادی ہوگی "
دانین نے ہنس کر کہا
" ایک تو تمہیں ہر وقت میری شادی کی پڑی رہتی ہے "
زار نے دانین کی طرف مسکرا کر دیکھا
" ہاں تو میرے اکلوتے بھائی ہیں آپ ۔ مجھے آپ کی شادی کی فکر نہیں ہوگی تو کیا چڑیلوں کو ہوگی "
دانین نے منہ بنایا
" تم بھی تو ایک چڑیل ہی ہو "
زار ہنسا
" پاپا دیکھیں بھائی مجھے چڑیل کہہ رہے ہیں "
دانین نے منہ بنا کر زبیر صاحب سے کہا
" چڑیل کو چڑیل نہیں تو اور کیا کہوں گا "
زار ہنسا تو سب ہنسنے لگے ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨
" ہر روز ہر رات پر لمحہ تمہیں سوچتے ہوئے گزارتی ہوں میری بچی ۔ نہ جانے تم کہاں ہوگی اور کس حال میں ہوگی ؟"
ایک ادھیڑ عمر عورت تصویروں کا ایک البم ہاتھ میں پکڑے ایک چھوٹی بچی کو دیکھ رہی تھی ۔
" اکیس سال پہلے جب تم پیدا ہوئی تھی تب میں نے تمہیں چھوڑ دیا تھا میری بچی ۔ اور یہی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی ۔ سب سے بڑی ۔۔ نہ جانے تم کہاں ہوگی میری بچی ۔۔
کہاں ہو گی تم ؟"
وہ بوڑھی عورت نم آنکھوں سے اس بچی کی تصویر کو دیکھ رہی تھی ۔
" اس وقت میری آنکھوں پر عشق کی پٹی بندھی تھی اور اپنے اس عشق کے لیے میں نے تمہیں چھوڑ دیا میری ہری تتلی اور تو ایسے غائب ہوئی کہ اب مجھے ملتی ہی نہیں"
اس کے آنسو اس کی گال میں پیوست ہونے لگے۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨
خوشبوئیں اور آرزوئیں
لمحہ بھر کی ہوتی مہمان
پھر ہوائیں تیز روئیں
زخموں کی کرتی بھرمار
زندگی مانو جیسے ایک
ناچتی ہوئی کٹھ پتلی
فضا میں اڑتی ہوئی
جیسے ہری تتلی
وہ اپنی مسحور آواز میں گنگناتے ہوئے چھت کے بنیرے پر پڑے کونڈے میں پرندوں کے لیے دانہ ڈال رہی تھی اور پھر مسکرا کر مڑی تو اس کا خوبصورت چہرہ عیاں ہوا ۔چڑھتے دن کی روشنی میں مانو جیسے آفتاب نکل آیا ہو ۔ سفید چہرہ سیاہ بالوں کا امتزاج اسے حسین بنا رہا تھا اور پھر سبز آنکھیں اس چہرے پر ایسے جب رہی تھیں کہ جیسے سورج پر کسی نے دو فیروزے لگا دیے ہوں ۔ عنابی ہونٹوں سے جب وہ مسکراتی تو اپنے نام کے معنی کا صحیح معنوں میں مطلب ادا کرتی ۔ وہ تھی ہی مسکراہٹ جیسی اور اسی لیے تو اس کا نام مسکان تھا ۔
" مسکان ارے مسکان کہاں ہو بیٹا "
کسی نے اسے پکارا ۔۔
یہ اس کی امی تھی ۔
" امی ! بس پرندوں کو دانہ ڈال رہی ہوں "
" ارے مسکان آ بھی جا تیرا بھائی انتظار کررہا ہے تیرا ۔ یونیورسٹی سے دیر نہیں ہورہی کیا "
مسکان اپنے گھر کی چھت پر کھڑی تھی اور یہ صبح سویرے کا وقت تھا جب پرندے خوراک کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اور جہاں کہیں کھانا ملتا ہے تو کھانے لگتے ہیں ۔ ایسے میں مسکان روز ان کو کھانا ڈالنا اپنا فرض سمجھتی تھی ۔
" اماں تجھے تو پتا ہے یہ پرندے میرے پیا ہیں "
مسکان ہنسی اور پھر سیڑھیوں سے اتر کر نیچے آنے لگی تاکہ اپنے بھائی کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر یونیورسٹی چلی جائے ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨
" اچھا اتنا کیوں منہ لٹکایا ہوا ہے "
مسکان نے سدرہ کی طرف دیکھ کر کہا
" آج رات میری پھپھو کے بیٹے سے میرا رشتہ طہ ہورہا ہے اور مجھے کل رات بتایا گیا ہے "
سدرہ نے مسکان کو اداسی سے رات کا سارا قصہ بتایا۔
سدرہ اور مسکان یونیورسٹی کی ڈیوری میں بیٹھیں ایک دوسرے سے بات چیت میں مصروف تھیں ۔ پوری یونیورسٹی میں ان دونوں کی دوسری مشہور تھی ۔ وہ تھیں ہی اتنی گہری سہیلیاں کہ ہر کوئی ان کی دوستی کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکتا تھا ۔
" تو اس میں منہ پھلانے والی کیا بات ہے ! یہ تو خوشی کی بات ہے یار کہ تمہاری منگنی ہورہی ہے ۔ پتا ہے میں تو ڈانس کروں گی ڈانس "
مسکان ہنسنے لگی ۔
"میں پھپھو کے بیٹے ہمایوں سے محبت نہیں کرتی اور اسی لیے میں یہ شادی نہیں کرسکتی "
سدرہ نے کہا تو مسکان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا
" سدرہ میری جان ! تمہارے امی ابو نے تمہارے لیے بہترین فیصلہ کیا ہوگا اور یہ محبت محبت کچھ نہیں ہوتا سچ بناوٹی باتیں ہیں ۔ دیکھنا ہمایوں تمہارے لیے کتنا بہترین ثابت پوگا۔ اور ویسے تمہیں کوئی اور بھی پسند نہیں تو ہمایوں سے شادی میں حرج کیا ہے "
مسکان سدرہ کو سمجھانے لگی
" حرج ہے ۔ میں شادی ہی نہیں کرنا چاہتی ۔ میں اسی سے شادی کرنا چاہتی ہوں جو مجھے سمجھے اور میں اسے سمجھوں ۔ جو میرے معیار پر پورا اترے ۔ جو میرا آئیڈیل ہو "
سدرہ نے آنکھوں میں خواب بھر کر کہا
" میری جان ! ہم لڑکیاں ہری تتلیاں ہوتی ہیں جو بابا کے گلشن میں آتی ہیں رس چوستی ہیں اور پھر باد بہاراں کے ساتھ پیا کے گلشن چلی جاتی ہیں ۔ بس کردو میری جان دیکھنا ہمایوں بھائی تمہیں بہت خوش رکھیں گے "
مسکان نے سدرہ کا آنسو صاف کیا
" یہ تو میں نہیں جانتی کہ وہ مجھے خوش رکھیں گے یا نہیں مگر مجھے اس سے شادی ہی ہی کرنی "
" اچھا میری جان ! دیکھو جب ہمایوں بھائی میں کوئی عیب نہیں تو ہونے ان سے رشتہ ۔ ابھی کونسی منگنی ہورہی ہے ۔ کچھ وقت دو انہیں ۔ اگر تمہیں نہ بہتر لگے تو میں بات کروں گی انکل اور آنٹی سے کہ وہ اس منگنی کو توڑ دیں "
مسکان نے سدرہ کو تسلی دی
" اور کیا وہ اتنی آسانی سے یہ رشتہ توڑ دیں گے ؟"
سدرہ نے کہا
" اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی میری جان !"
مسکان مسکرائی تو سدرہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨
" آپا یہ ہمایوں کہاں ہے ؟"
اسامہ صاحب نے پریشے بیگم کی طرف دیکھا
شادی کا فنکشن ختم ہونے والا تھا مگر ہمایوں کا کوئی نام و نشان ہی نہ تھا ۔ سب اس کا انتظار کر کر کے تھک گئے تھے ۔ اس کا فون بھی مسلسل بند جارہا تھا کہ اچانک اسامہ صاحب کے موبائل پر ہمایوں کے نمبر سے کال آئی ۔ کپکپاتے ہاتھوں سے انہوں نے کال اٹھائی تو دوسری طرف سے آتے الفاظ سن کر وہ ساکت رہ گئے ۔
" ہمایوں کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور وہ بہت بری حالت میں ہے "
0 Comments
Give your suggestions in comments.