Breaking News

6/recent/ticker-posts

Beloved by Salman Episode 4

تیز اور موسلا دھار بارش اور پھر چمکتی بجلی اور گرجتے بادل عجیب سا سماں پیدا کررہے تھے اور رات ہونے سے پہلے ہی دن کو رات میں بدل چکے تھے ۔ سہ پہر تھی مگر اندھیرا اتنا ہوچکا تھا ہوں لگتا تھا جیسے رات ہوچکی ہے ۔ 
ایسے میں صوفیہ اپنے کمرے کی بالکونی پر کھڑی ہمیشہ کی طرح اس موسم کے ساتھ وقت بیتا رہی تھی ۔ اور اپنے بابا کے لوٹنے کا انتظار کررہے تھی ۔ بابا کے جانے کے بعد موسم ہی ہوتا تھا جو اسے وقت دیتا تھا اور اس کی باتیں سنتا تھا ورنہ اس بھری حویلی میں اسے سننے والا کوئی تھا ہی نہیں ۔ ایسے میں بارش سے لطف اٹھاتے ہوئے وہ اپنی ماں کی سنائی گئی لوری گنگنانے لگی ۔
ستاروں کی چمک
پھولوں کی مہک
ہوا کے سنگ
فطرت کا ہر رنگ
دیتا ہے ہم کو مسکان
پھولوں کو کھکھلاہٹ
پرندوں کو چہچہاہٹ
درختوں کو تازگی
اور دنیا کو سادگی
دنیا بنے جاتی امن کی پہچان
پھر طوفان آتے ہیں
بلائیں ساتھ لاتے ہیں
چھن جاتی ہے مہک
بجھ جاتی ہے چمک
امن زمیں کا پوتا ہے برباد
خواب سارے چکنا چور
کرچی کرچی سب دستور
چونچالی وہ ہوا کی
تازگی وہ فضا کی
چھین کر لے گیا طوفان
لوری گنگناتے ہوئے وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گئی تھی۔ خیالوں کی دنیا میں جہاں وہ اپنے سپنوں کے شہزادے کے ساتھ خوبصورت وقت بیتا رہی تھی ۔ 
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
وہ سمندر کے کنارے پر بیٹھی تھی ۔ سہ پہر کا خوبصورت وقت تھا اور وہ پانی میں ٹانگیں لٹکائے سیپیاں چننے میں مصروف تھی ۔ وہ مسکرا مسکرا کر پانی سے سیپیاں اکٹھی کررہی تھی اور پھر مسکراتے ہوئے ان کو پاس پڑی ٹوکری میں رکھ رہی تھی ۔ ساتھ ساتھ وہ ایک گیت بھی گنگنا رہی تھی ۔ سمندر کے نیلے ساحل پر ہلکے گلابی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس وہ کسی پری کی طرح دکھائی دے رہی تھی اور جب ہوا کے دوش پر اس کے بال لہلہاتے تھے تو ہوں لگتا تھا جیسے برسات کے موسم میں کالی گھٹا چھا گئی ہو۔ وہ سیپیاں چن رہی تھی کہ اچانک تیز ہوا کا ایک زوردار جھونکا آیا وہ خود پر اور اپنے وجود پر قابو نہ رکھ سکی اور سمندر کے پانی میں جاگری ۔ 
اچانک تیز لہر آئی اور اسے اپنے ساتھ بہا کر لے گئی ۔ اس نے سنبھلنے کی بہت کوشش کی مگر بے سود رہی اور مدد کے لیے چلانے لگی ۔ اچانک اسے دور ساحل پر ایک گھڑسوار آتا دکھائی دیا ۔ گھوڑے پر سوار وہ شخص عجیب خوبصورت دھن میں اس کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ وہ اعلیٰ قسم کے لباس ملبوس تھا اور سفید گھوڑے ہے بیٹھا اس کے سپنوں کے شہزادے جیسا دکھائی دے رہا تھا یا شاید وہ شہزادہ ہی تھا ۔ شہزادے نے ساحل کے قریب آکر گھوڑا روکا اور گھوڑے سے نیچے آگیا اور سمندر میں کود گیا اسے بچانے کو ۔ 
سمندر میں تیرتے ہوئے شہزادے نے جا کر اس کا ہاتھ تھام لیا اور اسے لہروں کے بہاؤ سے نکال باہر کیا ۔ اس نے شہزادے کا لمس اپنے ہاتھ پر محسوس کیا ۔ 
ایک حسین احساس ۔۔۔
اس نے خود کو کہکشاؤں کے بیچ اڑتے پایا اور بادلوں کے اوپر اٹھکیلیاں کرتے پایا ۔  اپنے خوابوں کے شہزادے کے ساتھ ۔
ایک دم ایک آواز اسے خیالوں کی دنیا سے باہر لے آئی ۔
" صوفیہ "
تیز بارش اور بادلوں کی گرج میں اسے یہ جانی پہچانی آواز سنائی دی ۔ 
اس نے مڑ کر دیکھا تو اس کے سامنے اس کے بابا کھڑے تھے ۔ وہ اپنے خیالوں میں نہ جانے کہاں پہنچ چکی تھی کہ اچانک اپنے بابا کو اپنے سامنے پاکر حیرت زدہ رہ گئی ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
سیاہ لباس میں ملبوس ایک خاتون ایک قبرستان میں داخل ہوئی تھی ۔ یہ ایک عجیب سا قبرستان تھا جہاں پر طرف تاریکی کے سائے منڈلا رہے تھے اور اطراف میں موجود قبریں اسی تاریکی میں گم تھیں ۔ قبرستان ایک بھیانک منظر پیش کررہا تھا اور ایسے میں وہ خاتون سیاہ لبادہ اوڑھے ان قبروں کے بیچ بنے رستے پر چل رہی تھی ۔ جیسے وہ کسی خاص قبر کے تلاش میں ہو ۔ آخر ایک قبر کو دیکھ کر وہ رکی اور مسکرائی ۔
" یہی ہے میرے مارلم کی قبر "
پھر وہ اس قبر کے سرہانے کے جانب کھڑی ہوگئی ۔
" عظیم مارلم آج برائی کی ملکہ الیزا تمہاری قبر پر آئی ہے ۔ "
اس نے پھولوں کا ایک گلدستہ قبر پر رکھا اور اپنا سر اٹھایا ۔
اس کا خوفناک حلیہ جو اس قبرستان کے حلیے سے بھی خوفناک تھا ۔ لمبے اور عجیب و غریب بال ۔ جھریوں سے بھرا چہرہ ۔۔ موٹی موٹی آنکھیں اور انگور جیسے گول ہونٹ جو اس کی بدصورتی میں اضافہ کررہے تھے ۔ سر پر سفید تاج جو اسے مزید کلاسیکل بنا رہا تھا ۔
" میرے عزیز مارلم آج تمہاری پچاسویں برسی ہے اور آج میں ہر سال کی طرح پھر سے تمہاری قبر پر آئی ہوں یہ پھول تمہیں تحفہ پیش کرنے کے لیے ۔ شیطان تم سے خوش ہو اور تمہیں اپنے پاس بہترین درجے پر رکھے "
وہ مسکرائی 
" تم شہید ہوگئے مگر تمہاری موت کا بدلہ تمہاری عزیز الیزا نے لے لیاہرے عزیز مارلم ۔ ۔۔ 
میں نے اس شہزادے آذر کے ساتھ جو کیا وہ کسی نے بھی نہ سنا ہوگا نہ دیکھا ہوگا ۔ 
ایسا عبرتناک انجام کیا میں نے اس سچائی کے دعوے دار کا ۔۔ 
میں اس لوسی فر جیسی نہیں ہوں جسے سنڈریلا نے ہرا دیا تھا بلکہ میں اپنی کزن لوسی فر سے ہزار ہاتھ طاقتور ہوں ۔۔
ہاہاہا "
وہ زوردار قہقہہ لگانے لگی 
" تمہاری موت نے مجھے بہت ستایا مارلم مگر پھر میں نے شہزادے آذر کو اذیت دینا اپنا مشغلہ بنا لیا اور پھر یوں میں زندگی بسر کرتی رہی ۔۔ 
آج دنیا کا ایک بڑا حصہ مجھے برائی کی ملکہ کے نام سے جانتا ہے ۔۔
برائی کے ملکہ جس نے اچھائی کی آئی بڑی سلطنت تباہ و برباد کردی کہ جس کا سراغ آج تک کسی کو نہیں ملا "
اس نے زوردار قہقہہ لگایا 
" عزیز مارلم تمہارا الیزا اب تم سے اجازت چاہتی ہے "
وہ مسکرائی اور پھر قبرستان سے باہر کی جانب روانہ ہوگئی 
✨✨✨✨✨✨✨✨✨
" بابا "
صوفیہ نے حیرت سے کہا 
بجلی کی چمک نے اس کے سارے کمرے میں روشن کردیا ۔ تیز بارش اور بادلوں کی گرج منظر کو مزید ہولناک بنا رہی تھی ۔
" میری بچی ۔۔ صوفیہ "
اس کے بابا نے مسکرا کر اسے دیکھا 
" بابا "
صوفیہ کی آنکھوں میں نمی تھی ۔
پیچھے کھڑکی سے موسلا دھار بارش کا سلسلہ رواں تھا ۔ جس میں بارش کی آواز منظر کو مزید تقویت بخش رہی تھی ۔
صوفیہ دوڑی اور اپنے بابا مسٹر ماؤنٹ مین کے گلے لگ گئی ۔ 
مسٹر ماؤنٹ مین نے بھی اپنی بیٹی کو گلے سے لگا لیا اور ڈھیروں کو پیار کرنے لگے ۔
بجلی پھر سے چمکی اور ان دونوں پر روشنی بکھیرتے ہوئے ایک دم زائل ہوگئی ۔ 
" آپ کہاں چلے گئے تھے بابا ۔۔
آپ کو اتنی دیر کیوں ہوگئی ؟ 
ایک ایک لمحہ میں نے آپ کو انتظار کیا ہے بابا !"
صوفیہ نے اپنا بابا کا ہاتھ چوما 
" میری عزیز بیٹی اپنے بابا کو دیری کے لیے معاف کر دو ۔۔ بس ایک طوفان میں پھنس گیا تھا ہمارا جہاز "
صوفیہ کے بابا نے اس کا ماتھا چوما 
" میں تم سے صرف ایک گھنٹے کے لیے ملنے آیا ہوں میری بیٹی ۔ جلد ہی لوٹ جاؤں گا میں "
بادل زور سے گرجا تھا ۔
" کک کیسے بابا ؟ ابھی تو آپ آئے ہیں ۔۔
مما اور باقی سب بھی تو گھر نہیں ہیں ۔۔
آپ ایک دن تو رکیے نا "
صوفیہ نے کہا 
'' میری بٹیا مجھے جانا ہوگا ایک گھنٹے بعد ہمارا جہاز پھر سے روانہ ہوگا "
مسٹر ماؤنٹ مین نے اپنی بیٹی کو سر پر پیار کیا ۔ 
" بابا آپ بارش میں بھیگتے آئے ہیں ۔ 
میں آپ کے لیے یخنی بنا کر لاتی ہوں ۔
آپ نیچے آئیے میرے ساتھ "
صوفیہ نے بابا کا ہاتھ پکڑا 
" نہیں بیٹا بہت ک۔ وقت ہے پھر چاہے ملنا قسمت میں ہو ہی نا "
ایک دم سے بادل گرج اٹھا اور صوفیہ کو لگا جیسے بادل کا گرجنا اس کے دل پر آکر لگا ہے ۔ بارش بھی ایک دم تیز ہوگئی ۔ بجلی میں چمک اٹھی ۔
بوڑھے آدمی نے نم آنکھوں سے کہا 
درندے کی بات اس کی ذہن میں گونج رہی تھی ۔
" یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ بابا ؟
آپ کو پتا ہے آپ کے علاوہ میرا اس دنیا میں کون ہے ؟ مم مجھے مت چھوڑ کر جائیے گا بابا "
صوفیہ رونے لگی تو مسٹر ماؤنٹ مین اس کے آنسو پونچھنے لگے ۔
" ارے میں تو مذاق کررہا تھا ۔ 
تم جاؤ اور یخنی بناؤ "
بوڑھے نے پیار سے کہا تو صوفیہ مسکراتے ہوئے چلی گئی ۔
اب بارش کی روانی میں کمی آگئی تھی ۔ بادل میں گرجنا بند ہوچکا تھا اور بجلی بھی اب نہیں چمک رہی تھی ۔ بالکونی سے سیاہ آسمان دکھائی دے رہا تھا ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
مسٹر ماؤنٹ مین لاونج میں بیٹھے تھے اور لاونج کی کھڑکی سے تاریک آسمان کو دیکھ رہے تھے ۔ اور بار بار سامنے لگے گھڑیال پر بھی نظر ڈالتے ۔ گھٹی کی ٹک ٹک بادل کی گرج سے زیادہ انہیں دہلا رہی تھی ۔ آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا ۔ اور وہ فیصلہ کر چکے تھے صوفیہ کو کچھ بھی نہ بتانے کا اور خود کو درندے کے سامنے پیش کرنے کا ۔ لیکن ایک پریشانی بھی تھی اپنی بیٹی کو کھونے کی پریشانی ۔ 
اتنے میں صوفیہ یخنی بنائے وہاں داخل ہوئی ۔
" لیجیے آپ کی گرما گرم یخنی تیار ہے "
صوفیہ نے کیتلی میز پر رکھی اور کپ والی ٹرے بھی ۔
" کتنی اچھی خوشبو ہے !"
مسٹر ماؤنٹ مین مسکرائے 
" ہاں بابا " 
پھر صوفیہ نے کیتلی سے یخنی کپ میں انڈیلی اور پھر وہ دونوں یخنی پینے لگے۔ 
بارش ابھی بھی ہورہی تھی ۔ مگر فضا ابھی خاموش تھی ۔ یہ خاموشی شاید طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی کیونکہ جلد ہی موسلا دھار بارش پھر سے شروع ہونے والی تھی ۔
مسٹر ماؤنٹ مین نے گھڑی پر دیکھا پانچ منٹ بچے تھے ۔
" بیٹا میں تمہاری ماں سے بہت پیار کرتا تھا مگر وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئی ۔ تم مجھے بہت پیاری ہو ۔۔ بہت پیاری ۔ اپنی سوتیلی ماں اور بہنوں کو ہمیشہ اپنا سگا سمجھنا ۔ اگر وہ تم سے غلط کریں تو میری بیٹی برداشت کر لینا ۔ مجھے پتا ہے وہ تمہاری سوتیلی ضرور ہیں مگر تمہیں کچھی تنہا نہیں چھوڑیں گی ۔ اور گوڈ بھی تو ہے وہ تمہیں کسی اچھے ہم سفر سے ملائے گا۔ 
اپنے بابا کو کبھی مت بھولنا "
مسٹر ماؤنٹ مین نے صوفیہ کے سر پر پیار کیا ۔
چراغ کی روشنی میں ان دونوں کی آنکھوں میں بہتے آنسو واضح دکھائی دے رہے تھے ۔
" بابا ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ؟"
'' بیٹا مجھے ابھی جانا ہے "
بوڑھے آدمی نے گھڑی پر نظر ڈالی ایک منٹ بچا تھا ۔ 
زوردار ہوا آئی اور وہاں چراغ بجھ گیا ۔ لاونج میں مکمل اندھیرا چھا گیا ۔ بادل گرجنے لگا ۔ بارش یک دم تیز ہوگئی اور بجلی کڑکنے لگی ۔ 
مسٹر ماؤنٹ مین نے انگوٹھی کا دیکھا اور پھر وہ غائب ہوگئے 
صوفیہ نے جلدی سے دوبارہ چراغ جلایا مگر وہاں اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا ۔
" بابا "
وہ چلائی ۔
بجلی کی چمک سے سارا لاونج روشن ہوگیا 
" بابا "
اس نے ادھر ادھر دیکھا 
بادل گرجا تو وہ سہم سی گئی 
" آپ چلے گئے بابا ۔ 
آپ چلے گئے "
وہ زاروقطار رونے لگی ۔
اچانک اس کے زمین پر گرتے آنسو آپس میں ملے اور اس کے سامنے ایک زوردار دھماکہ ہوا اور ایک خوبصورت پری اس کے سامنے عیاں ہوئی جسے دیکھ کر صوفیہ حیرت زدہ رہ گئی ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨ 
درندہ اپنے محل کی بالکونی کھڑا تھا اور ٹہل رہا تھا وہ بوڑھے آدمی اور اس کی بیٹی کا انتظار کررہا تھا ۔ بار بات گھڑی پر نظریں ٹکا لیتا تھا ۔ وقت پورا ہوا تو وہ مسکرایا ۔ اس کی مسکان میں ایک عجیب معصومیت بھی تھی ۔ آنکھ سے آنسو بھی نکل پڑے ۔ اچانک اس کے سامنے وہ بوڑھا آدمی ظاہر ہوا ۔ وہ اکیلا تھا اسے اکیلا دیکھ کر درندہ حیرت زدہ تھا 
" تم اکیلے آئے ہو "
وہ دھاڑا 
" ہاں ۔۔ 
تم مجھے کھا جاؤ ۔۔ "
بوڑھے آدمی نے خود کو درندے کے سامنے پیش کردیا تو درندہ خونخوار آنکھوں سے اسے دیکھنے لگ گیا ۔
جاری ہے 






Post a Comment

0 Comments