" پتا نہیں میری کب تک میری زندگی یونہی طوفانوں کے دوش پر رہے گی ۔ میری زندگی میں بہار پتا نہیں کب آئے گی "
صوفیہ اپنی سہیلی میری کے ساتھ اس کی حویلی کے ٹیرس پر کھڑی تھی اور باتیں کررہی تھی ۔
" صوفیہ تم تر بہت بہادر ہو ۔ تم کیسے ہمت ہار سکتی ہو ؟"
میری نے اس کی طرف دیکھا
" میری تم جانتی ہو جس اذیت میں میں جیتی ہوں اس میں دیر تک ڈٹے رہنا میرے لیے مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ بابا بھی ابھی تک نہیں آئے مجھے ان کی فکر ستا رہی ہے ۔۔ نہ جانے کب آئیں گے وہ ؟"
صوفیہ نے مارے تشویش کے کہا
" میں جانتی ہوں تم اپنے بابا کی وجہ سے ایسی مایوسی والی باتیں کررہی ہو ورنہ میں جانتی ہوں تم سے بہادر انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا ۔ لیکن تم فکر نہ کرو تمہارے بابا جلد ہی آئیں گے ۔ تم تو جانتی ہو تاخیر ہو ہی جاتی ہے اور ویسے وہ کونسا دوسرے شہر گئے تھے وہ دوسرے براعظم گئے ہوئے تھے ۔"
میری نے صوفیہ کو تسلی دی
" پتا ہے میری ۔۔"
صوفیہ نے آسمان میں کھوئے ہوئے کہا
" ایک دن میرے خوابوں کا شہزادہ سفید گھوڑے پر بیٹھا ہوا آئے گا اور پھر گھوڑے سے نیچے اترے گا اور اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے گا اور مجھے گود میں اٹھا کر گھوڑے پر بٹھائے گا اور مجھے اس دکھ بھری زندگی سے کہیں دور کے جائے گا ۔ ایک ایسی جگہ جہاں ہم دونوں ہوں گے اور خوشیاں ہوں گی "
صوفیہ نے مسکراتے ہوئے کہا
" میں بھی تمہارے لیے یہی دعا کرتی ہوں صوفیہ کہ گوڈ جلد ہی تمہارا ہم سفر تمہاری زندگی میں بھیج دے جو تمہیں اس سوتیلی ماں کی سرزنش سے کہیں دور لے جائے "
میری بھی مسکرائی تو صوفیہ بھی مسکرانے لگی ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨
کچھ میل کا سفر طہ کرنے کے بعد وہ اس عالیشان محل تک جا پہنچا ۔ وہ فلک بوس انتہائی خوبصورت محل تھا جسے دیکھتے ہی وہ بوڑھا آدمی حیراں ہوئے بنا نہ رہ سکا ۔ وہ محل پرانا بھی نہیں تھا ہوں لگتا تھا جیسے اس محل کو بنے کچھ ہی دیر گزری ہو ۔ بالکل نیا اور جدید ۔
محل کے صدر دروازے پر کوئی بھی سپاہی یا کوئی پہرے دار نہیں تھا اس بات نے بھی اس نے حیرت میں ڈال دیا تھا ۔
" مجھے اندر جانا چاہیے یا نہیں "
اس نے ایک لمحہ سوچا اور پھر صدر دروازے پر دستک دی ۔ مگر اس کی ہلکی سی دستک نے دروازہ کھول دیا ۔ اگلے لمحے محل کے اندر کا منظر دیکھ کر وہ چکرا کر رہ گیا ۔
یہ ایک بہت بڑا کمرہ تھا جس کے داہنی جانب ایک دالان تھا اور اس کمرے میں بیچ میں ایک میز پڑی تھی جس پر انواع و اقسام کے کھانے کے تھے جن سے خوشبو کی ٹیسیں اڑ اڑ کر اس بوڑھے آدمی کے نتھنوں تک پہنچ رہی تھیں ۔ رات بھر کا بھوکا کھانے کو دیکھ کر خود کو قابو میں نہ رکھ سکا اور تیزی سے بڑھ کر اس میز تک جا پہنچا ۔ مختلف اقسام کے پھل ، سالن ، کھیر ، دلیے اور مشروب اس کا دل لبھانے لگے ۔ وہ میز کے گرد لگی کرسیوں میں سے ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور کھانے پر ٹوٹ پڑا ۔ کچھ دیر بعد وہ اتنا کھانا کھا چکا تھا جس سے اس کا پیٹ مکمل بھر چکا تھا ۔ ابھی بھی وہاں کثیر مقدار میں کھانا موجود تھا ۔ وہ کھانے کے لالچ میں اتنا بے فکر ہوگیا کہ اس کے ذہن میں یہ خیال ہی نہیں آیا کہ یہ کھانا اور محل ہے کس کا ؟
بھوکے پیٹ کو کھانا ملا تو اسے بہت سکون ہوا اور اسے نیند آنے لگی ۔ اس بڑی میز کے پاس ہی ایک صوفہ پڑا تھا اور وہ بوڑھا آدمی اس صوفے پر جا کر لیٹ گیا ۔ چند سیکنڈ میں ہی نیند اسے اپنی دنیا میں لے گئی ۔
وہ کافی دیر سوتا رہا کہ اچانک ایک خوفناک آواز نے اسے نیند سے بیدار کردیا ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨
" ماں آپ صوفیہ کو ساتھ لیکر کیوں جارہی ہیں ؟"
ڈریزیلا اپنی بیٹیوں ادا اور آلیا کے ساتھ اپنی سہیلی روزی کے گھر جارہی تھی اور ڈریزیلا نے صوفیہ سے بھی کہا تھا کہ ہمارے ساتھ چلے اور اسی بات پر ڈریزیلا کی دونوں بیٹیاں اس سے نالاں تھیں ۔
" ہاں ماں آپ جانتی ہیں روزی آنٹی کے بیٹے کو وہ اپنی طرف مائل کر لے گی اور ہوں میں اور آلیا ایک اچھا ہم سفر کھو دیں گی "
دونوں بہنوں نے اپنی ماں سے کہا
" تم دونوں اتنی بدو ہو یا جان بوجھ کر ایسا کرتی ہو"
لیڈی ڈریزیلا نے لپ اسٹک لگائی
" بیٹا صوفیہ ہمارے ساتھ نہیں جارہی "
" مگر آپ نے صوفیہ سے ساتھ چلنے کو کہا تھا "
آلیا نے کہا
" ہاں ماں وہ بہت تیزی سے سارے کام نمٹا رہی ہے "
ادا بھی بولی
" تم دونوں شاید مجھے نہیں جانتی ہو ۔ میں اپنی ماں روبی جیسی بالکل بھی نہیں ہوں ۔۔
بس ابھی تم دونوں دیکھنا ہوتا ہے کیا"
ڈریزیلا نے مسکرا کر اپنی بیٹیوں کی طرف دیکھا اور پھر زور سے قہقہہ لگانے لگی ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨
اس بوڑھے آدمی کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے سامنے ایک بھیانک جنگلی درندے کو دیکھا جس کا قد ایک عام انسان جتنا تھا اور وہ دو پیروں پر بھی چل رہا تھا جیسے کوئی ریچھ تھا ۔ اس کا رنگ گہرا بھورا تھا اور اس نے انسانوں جیسا ہی لباس زیب تن کر رکھا تھا ۔ اور اس کا لباس خاصا شاہی لگتا ہے ۔
وہ بوڑھا آدمی ایک دم سہم سا گیا اور اٹھ کر بیٹھ گیا ۔
" کون ہو تم ؟ اور میرے محل میں آنے کی اجازت تمہیں کس نے دی ؟"
وہ ریچھ بلند آواز میں بولا تو بوڑھا آدمی سکتے میں آگیا
" مم میں "
بوڑھا آدمی ایک دم کپکپا اٹھا ۔
" بتاؤ تمہاری جرات کیسے ہوئی میرے محل میں داخل ہونے کی ؟"
وہ درندہ چلایا
" مم مجھ"
اس سے پہلے بوڑھا کچھ کہتا ۔ درندے کی نظر سامنے میز پر پڑی جہاں آدھا کھانا ختم ہوچکا تھا ۔
" تو یہ کھانا بھی تم نے کھایا ؟"
درندہ چیخا
" مم میں بھوکا تھا ۔۔ سس سمندر میں ڈوبتا ہوا یہاں آگیا !"
بوڑھے نے ڈرتے ہوئے ٹوٹے الفاظ میں بتایا
" تم بھوکے تھے مگر تم نے میرا کھانا کھا لیا "
درندہ چیخا
اس کی شکل سے درندگی واضح تھی جیسے اگلے ہی لمحے اس بوڑھے آدمی کو نوچ کر کھا لے ۔
" مم مجھے معاف کردیں "
بوڑھے آدمی نے ہاتھ جوڑ لیے
" نہیں ۔ معافی اتنی آسانی سے نہیں ملے گی ۔
تم نے میرا کھانا کھایا اس کھانے کے بدلے تمہیں بھی میرا ایک کام کرنا پڑے گا "
اس جنگلی درندے نے چیخ کر کہا
" اپنی بڑی بیٹی کا ہاتھ تمہیں میرے ہاتھ میں تھمانا ہوگا ورنہ میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا ۔ اپنی زندگی بچانا چاہتے ہو تو اپنی بیٹی کو یہاں چھوڑ جاؤ اور خود چلے جاؤ ۔ "
درندے نے بوڑھا آدمی کو دیکھا جس کی آنکھوں میں خوف کے ساتھ ساتھ حیرت بھی تھی ۔
" میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ ایک مہینے بعد تمہاری بیٹی گھر واپس آجائے گی اور میں اسے ذرا بھی نقصان نہیں ہہنچاؤں گا اور اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تمہیں اپنی جان دے کر میرے کھانے کی قیمت چکانی پڑے گی "
درندہ زور سے دھارا تو بوڑھے کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی ۔
" میری بیٹی ۔۔ میری پھولوں جیسی نرم نازک صوفیہ "
بوڑھے کی آنکھوں کے سامنے اپنی بیٹی صوفیہ کا چہرہ آگیا ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨
صوفیہ مسکراتے ہوئے پودوں کو پانی دے رہی تھی اور ساتھ ساتھ کچھ گنگنا رہی تھی ۔ آسمان پر بادل چھائے تھے اور سہ پہر کا وقت تھا ۔ دھوپ تھم چکی تھی اور خوبصورت ہوا چل رہی تھی ۔ اچانک وہاں سے لیڈی ماؤنٹ مین اپنی بیٹیوں کے ساتھ وہاں سے گزری ۔ وہ تینوں تیار تھیں اور کہیں جارہی تھیں ۔ ان کو دیکھ کر صوفیہ چونک گئی ۔
" ماں ۔۔ مم میں بس ایک منٹ میں۔ تیار ہو کر آتی ہوں "
صوفیہ نے ان کو دیکھ کر مسکرا کر کہا
" نہیں صوفیہ کہیں جانے کی ضرورت نہیں ۔ تم ہمارے ساتھ نہیں جارہی ۔ "
ڈریزیلا نے شیطانی مسکان دی
" مم مگر ماں ۔ میں نے سارا کام کر لیا ہے ۔ اور ابھی ابھی پودوں کو پانی بھی دیا ہے "
صوفیہ نے التجاء کی
" نہیں صوفیہ ابھی بھی ایک کام رہ گیا ہے ۔
لان کی گھاس کرنی بڑھ چکی ہے "
ڈریزیلا نے سامنے گھاس کی طرف اشارہ کیا
" مم مگر ماں وہ تو آپ نے مجھے کرنے کو نہیں کہا تھا "
صوفیہ نے معصومیت سے کہا
" تو کیا تمہیں ہر کام بتانا پڑے گا کہ فلاں کرو فلاں نہ کرو ۔ جاؤ تمہارا سزا ہے تم لان کی گھاس کاٹو گی اور ہم تینوں جب تک واپس نہ آئیں تم حویلی سے باہر نہیں نکلو گی ۔ سمجھی تم "
ڈریزیلا نے غصے سے کہا اور پھر وہ تینوں حویلی سے نکل گئیں اور صوفیہ نم آنکھوں سے انہیں جاتا ہوا دیکھنے لگی ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
" تت تم مجھے مار ڈالو ۔۔ مم مجھے مار ڈالو ۔۔"
بوڑھے آدمی نے التجائی نظروں سے درندے کو دیکھا
" مم میری بیٹی مم مجھے بہت عزیز ہے "
" تو تم ڈر رہے ہو اپنی بیٹی کو میرے پاس چھوڑنے کو "
درندہ دھارا
" تت تم اسے کھا جاؤ گے ۔۔ "
بوڑھا آدمی رونے لگا
" نن نہیں کھاؤں گا اسے ۔
تم سے وعدہ ہے میرا ۔
میں اسے ہاتھ تک نہیں لگاؤں گا "
درندے نے کہا
" جاؤ اور ایک بار اپنی بیٹی سے پوچھ لو ۔۔
شاید وہ تمہاری بات مان جائے "
درندہ مسکرایا
بوڑھا ایک لمحے پریشان سا ہوگیا
" جاؤ تمہاری بیٹی تمہارے لیے خود کو پیش کرتے گی ۔ وہ محبت کرتی ہے تم سے ۔۔ "
درندے نے کہا تو بوڑھا حیرت میں مبتلا ہوگیا
" اچھا سنو ۔
تم واپس جارہے تھے گھر کو اور پھر طوفان تمہیں یہاں لے آیا ۔ تمہاری بیٹی راہ تک رہی ہوگی تمہاری ۔ انتظار ہوگا اسے اپنے بابا کے آنے کا ۔۔
تو کیا تم اپنی بیٹی سے ملنا نہیں چاہو گے "
درندے نے کہا تو بوڑھا آدمی اپنی بیٹی سے محبت میں تڑپ اٹھا
" مم میری بیٹی ..
میں ملنا چاہتا ہوں اسے "
" تو ٹھیک ہے میں بھیجوں گا تمہیں تمہاری بیٹی کے پاس ۔ مگر ایک گھنٹے کے لیے اور اس گھنٹے کے بعد تم میرے پاس واپس آؤ گے اپنی بیٹی کو لیکر ۔۔ اور اگر تم اسے نہ لائے تو یہ تمہاری زندگی کا آخری دن ہوگا "
درندہ دھارا
پھر اس نے اپنی انگلی سے ایک انگوٹھی اتاری ۔
" یہ انگوٹھی لو "
درندے نے انگوٹھی بوڑھے آدمی کو دی
" اسے پہن لو اور اسے پہنتے ہی تم غائب پوجاو گے اور جہاں جانا چاہو گے ایک گھنٹے کے لیے وہیں چلے جاؤ گے اور جب ایک گھنٹہ ختم ہونے والا ہوگا تو اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام لینا اور یوں وہ بھی تمہارے ساتھ یہاں آجائے گی "
درندے نے اسے ہدایت دی
" تمہارا وقت شروع ہوتا ہے ابھی "
درندہ مسکرایا اور وہاں سے سامنے کی طرف جاتے دالان کو مڑ گیا ۔
بوڑھا آدمی ایک لمحے سوچتا رہا اور پھر اس نے انگوٹھی پہن لی ۔
اگلا لمحہ چکرا دینے والا تھا کیونکہ وہ وہاں سے غائب ہوچکا تھا ۔
جاری ہے
0 Comments
Give your suggestions in comments.