Breaking News

6/recent/ticker-posts

Beloved by Salman Episode 2

بحری جہاز اپنی روانی میں سمندر میں تیر رہا تھا اور سمندر بھی خوبصورت لہریں بکھیرتا ہوا اس بحری جہاز کو اس کی منزل تک لے جانے میں معاون ثابت ہورہا تھا ۔ 
" ہم جلد ہی ساحل تک پہنچنے والے ہیں " 
کسی نے نقارہ بجا کر بحری جہاز میں اعلان کیا تو تمام لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ سب اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے بہت بے تاب تھے ۔ سب کے چہرے مسکان کی تاب سے چمک اٹھے ۔ سب بہت خوش تھے اور اپنے گھر والوں سے ملنے کی خوشی کو محسوس کررہے تھے کہ اچانک سمندر میں لہریں زور پکڑنے لگیں ۔ ایک دم سب کے چہروں پر چھائی خوشیاں حیرت میں بدل گئیں۔ بادلوں نے فلک کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور بجلی کڑکنے لگی تھی ۔ اور بادل بھی گرجنے لگا ۔ 
سمندر میں موجیں زور پکڑنے لگیں اور رفتہ رفتہ یہ لہریں ایک طوفان کا روپ دھار گئیں ۔ ایک دم سے موسلا دھار بارش شروع ہو گئی ۔ 
سب لوگ خوفزدہ ہوگئے۔ دعائیں کرنے لگے ۔ تیز ہوا آندھی اور پھر بارش۔ جہاز اب کپتان کے بس میں نہیں رہا تھا اور جہاز طوفان کے دوش پر خود ہی چلنے لگا ۔ سب کو نقارہ بجا کر خبردار کردیا گیا ۔سب لوگ خوفزدہ ہوچکے تھے اور خدا سے دعائیں کرنے لگے ۔ اب سب کو اپنی جان کی فکر لاحق ہوگئی ۔
تیز طوفان آندھی اور موسلا دھار بارش کی ضد میں۔ طوفان زیادہ دیر ٹک نہ سکا ۔ طوفان نے سب تباہ کردیا ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨
" بہت تیز بارش تھی "
صوفیہ اپنے کمرے کے بالکونی سے کھڑی شام کے نظارے سے لطف اٹھا رہی تھی ۔ اسے اپنے بابا کا انتظار تھا مگر وہ ابھی تک نہیں آئے تھے ۔ بارش رک چکی تھی اور وہ بارش کے بعد اس سماں کو اپنی آنکھوں میں بسا رہی تھی ۔ 
" بابا آپ کہاں ہیں ؟"
اس نے سرخ شفق کو دیکھتے ہوئے کہا 
" آپ نہیں جانتے مجھے کتنی فکر ہورہی ہے آپ کی ! اتنی تیز بارش تھی ! پتا نہیں آپ کہاں ہوں گے "
اس نے جھنجھلا کر کہا 
اچانک اسے نیچے لان میں لیڈی ماؤنٹ مین یعنی اپنی سوتیلی ماں دکھائی دی ۔ جو اپنی بیٹیوں ادا اور آلیا کے ساتھ کھڑی شام کے منظر کا لطف اٹھانے میں مصروف تھی ۔ اچانک ادا نے اوپر دیکھا تو اس کی نظر بالکونی میں کھڑی صوفیہ پر پڑی 
" ماں وہ دیکھو صوفیہ بالکونی میں بیٹھی ہے "
ادا نے ماں کی توجہ صوفیہ کی طرف مبذول کرائی 
" یہ یہاں بیٹھی ہے ۔ حالانکہ میں نے اسے کہا تھا کہ سٹور روم کی صفائی کرے ۔ "
ڈریزیلا نے اوپر دیکھا اور خونخوار نگاہوں سے صوفیہ کو گھورا ۔
" نیچے او "
اس نے زوردار آواز سے صوفیہ کو پکارا
صوفیہ یک دم سہم گئی اور اثبات میں سر ہلا کر نیچے کی طرف گامزن ہوگئی ۔
" میں نے تمہیں سٹور روم کی صفائی کے لیے کہا تھا ۔ جانتی ہو تمہارے بابا آنے والے ہیں ۔ 
جب وہ مکڑی کے جالوں سے اٹا ہوا سٹور دیکھیں گے تو کیا جواب دوں گی ان کو میں "
صوفیہ نیچے لان میں آئی تو لیڈی ماؤنٹ مین اس پر چیخی 
" پہ پر م م ماں ''
صوفیہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی 
" چپ کرو ۔ جانتی ہوں ۔ تم اپنے باپ سے میری شکایت کرنا چاہتی ہو ۔۔ جانتی ہوں وہ آئیں گے تو تم بتاؤ گی ان کو کہ میں تمہارے ساتھ برا سلوک کرتی ہوں ۔۔ جانتی ہوں تم میری اور اپنے باپ کی علیحدگی کروانا چاہتی ہو "
لیڈی ماؤنٹ مین نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا 
" مم ماں میں ایسا نہیں چاہتی "
صوفیہ نے جھٹ سے کہا 
" تو کیوں تم نے صفائی نہیں کی "
لیڈی ماؤنٹ مین نے کہا 
" ماں یہ یہی چاہتی ہے ۔ یہ چاہتی ہے ہم لوگ اس گھر میں نہ رہیں "
آلیا نے بھی اپنی ماں کی تائید کی 
" نن نہیں ۔۔ آپ غلط سمجھ رہے ہیں "
صوفیہ نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر ادا نے اس کی بات کاٹ دی 
" تم ہماری ماں کو غلط کہہ رہی ہو "
" نن نہیں "
صوفیہ پھر سے بولی 
" نہیں صوفہ بیٹا تم ٹھیک کہہ رہی ہو ۔۔
ہاں میں غلط ہوں 
بہت غلط ہوں ۔۔ کیونکہ میں نے تمہیں سوتیلی نہیں سگی ماں بن کر پالا ہے ۔ تم میں اور ادا آلیا میں کوئی فرق نہیں رکھا ۔۔ تک تینوں کو برابر پیار سے پالا اور آج تم جوان ہوگئی ہو اور ہاں میں غلط ہوں ۔۔ 
تمہارے بابا تر چلے جاتے تھے میں ہی تھی جس نے تمہیں زندگی جینا سکھائی ۔ ہاں میں ہی تھی "
لیڈی ماؤنٹ مین رونے لگی 
" نن نہیں ماں ۔۔ میں ایسا نہیں کہہ رہی تھی "
اپنی سوتیلی ماں کو یوں روتا دیکھ کر صوفیہ کا دل پسیج گیا 
" ماں مجھے معاف کردیں ۔ مجھے معاف کردیں ماں ۔۔"
صوفیہ ڈریزیلا کے پیروں میں بیٹھ گئی 
" میرا ہرگز وہ مطلب نہیں تھا ۔
آپ تو میرے لیے دنیا کے بہترین ماں ہیں ۔ 
آپ نے کبھی مجھے سوتیلا نہیں سمجھا ۔
میں کہنا چاہ رہی تھی کہ میں گودام کی صفائی کر چکی ہوں "
صوفیہ نے سے جھکا کر کہا 
" اوہ میرے پیاری بیٹی "
ڈریزیلا نے آنسو پونچھتے ہوئے صوفیہ کے چہرے کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھا 
" میں جانتی تھی میری بیٹی صوفیہ مجھے کبھی رسوا نہیں کرے گی جاؤ اب جا کر آرام کرو تم تھک گئی ہوگی نا "
صوفیہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئی ڈریزیلا نے کہا تو صوفیہ اثبات میں سر ہلا کر مسکراتی ہوئی آٹھ کر چلی گئی ۔ صوفیہ کے ساتھ اپنی ماں کا ہوں اچھا رویہ دیکھ کر آلیا اور ادا نے حیرت سے جاتی ہوئی صوفیہ کو دیکھا اور ماں سے کہا 
" یہ کیا تھا ماں ۔۔ آج آپ کو صوفیہ پر اتنا پیار کیوں آرہا ہے ؟"
ادا اور آلیا یک دم بولیں 
" میری معصوم گڑیاو ! تم دونوں سدا بھولی ہی رہنا ! تم تو جانتی ہو اگر اس نے اپنے باپ کو بتا دیا ہمارے بارے میں تو وہ ہمیں اس حویلی سے نکال دے گا "
ڈریزیلا نے کہا 
" میں نے چلی ہے چال اور صوفیہ پھنسا لیا ہے اپنے جال میں اور اب یہ صوفیہ سمجھے گی کہ میں اس کی خیر خواہ ہوں مگر یہ تو صرف چار دن کی چاندنی ہے پھر جب تمہارا باپ چلا جائے گا پھر وہی اندھیری رات "
بڑھتے اندھیرے میں ڈریزیلا نے مسکرا کر کہا 
" چلو آلیا اور ادا اندر چلتے ہیں اور انتظارِ کرتے ہیں مسٹر ماؤنٹ مین کا "
ڈریزیلا نے کہا اور پھر وہ تینوں حویلی کے اندر جانے لگیں ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
پو پھوٹ رہی تھی اور اندھیرا چھٹ رہا تھا ۔ ایسے میں ڈھلتے اندھیرے میں سمندر میں کوئی شخص ایک بڑے صندوق پر بے ہوش پڑا تھا اور وہ صندوق لہروں کے بہاؤ میں تیرتا ہوا چلا آرہا تھا ۔ موجوں کی زد میں بہتا ہوا یہ صندوق اور اس پر موجود وہ شخص نہ جانے کون تھا اور کہاں سے آیا تھا بس بہتے پانی کے بہاؤ کے ساتھ ایک منزل کی طرف دوراں تھا ۔ ۔ دن چڑھ رہا تھا اور یوں سمندر کے پانی کی تاریک رنگت میں بھی نکھار آتا جارہا تھا ۔ وہ صندوق تیرتا ہوا ایک جزیرے تک جاپہنچا اور یہ وہی وقت تھا جب سورج چڑھ رہا تھا ۔ لہروں نے خود پر اسے سوار کیا اور صندوق اور آدمی دونوں جزیرے کی تپتی ریت پر پھینک دیا۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
آج بھی عام دنوں کی طرح صبح ہوئی ۔ بادصبا نے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے حویلی کے بالائی چھت پر موجود صوفیہ کے کمرے کی پائیں کھڑکی کو کھول دیا ۔ کھڑکی کھلی تو دھوپ کی کرنیں سامنے بستر پر سوتی صوفیہ کی آنکھوں پر پڑی اور وہ آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئی ۔وہ مسکرائی اور گیری سانس لی اور پھر پلنگ سے نیچے آگئی اور مسکراتی ہوئی بالکونی پر چلی گئی ۔ 
صبح کا موسم بہت خوبصورت تھا ۔ چڑھتا ہوا سورج اور رنگ بدلتا آسمان پر کسی کے من کو بھا جاتا ہے ۔
" کتنا سہانا موسم ہے !"
صوفیہ مسکرائی 
" میرے بابا بھی آج آجائیں گے "
آنکھوں میں ایک امید لیے اس نے سورج کو دیکھا ۔ ہر روز کا سورج انسان کو ایک نئی امید دیتا ہے ۔ وہ مسکرائی اور پھر اپنے کمرے سے نیچے کی جانب گامزن ہوگئی ۔ اسے ابھی بہت کام کرنے تھے ۔ 
وہ کیچن گئی اور جلدی سے برتن دھونے لگی ۔ اور پھر ناشتہ پکانے لگی ۔۔ کچھ ہی دیر میں ناشتہ پک گیا 
" مجھے ماں اور بہنوں کو جگا دینا چاہیے "
وہ مسکرائی اور ان کے کمروں کی طرف بڑھ گئی 
✨✨✨✨✨✨✨✨✨
ناشتے کی میز پر لیڈی ماؤنٹ مین اپنی بیٹیوں کے ساتھ بیٹھی تھی اور صوفیہ ان کے لیے ناشتہ لیے خوبصورت ٹرے میں سجائے حاضر ہوئی ۔ صوفیہ نے ناشتہ میز پر سجایا اور جونہی آلیا کا چائے کا کپ میز پر رکھنے لگی تو اس کا ہاتھ پھسلا اور کپ اس کے ہاتھ سے زمین پر گر گیا ۔
" یہ کیا کردیا تم نے ؟"
آلیا نے چیخ کے صوفیہ کو کہا یہ دیکھے بنا کہ اس گرم چائے سے صوفیہ کا ہاتھ بھی جل گیا تھا 
" تمہارا دھیان کہاں ہوتا ہے صوفیہ ؟"
لیڈی ماؤنٹ مین چلائی
" مم "
صوفیہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر ادا نے اس کی بات کاٹ دی 
" یہ اپنے بابا کے انتظار میں کھوئی ہوگی ۔ سارا ناشتے کا موڈ خراب کردیا "
" جاؤ دفع ہو جاؤ یہاں سے اور دوسری چائے بنا کر لاؤ "
لیڈی ماؤنٹ مین نے کہا تو صوفیہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔ ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکلا اور تھوڑی تک آگیا ۔ پھر وہ کیچن کی طرف قدم بڑھانے لگی ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨
سورج کی تپش بڑھنے لگی اور وہ عین سوا نیزے پر آگیا ۔ سورج کی یہ کرنیں جزیرے کی تپتی ریت میں پڑے بےسدھ وجود کو بھی گرما رہی تھیں ۔ کافی دیر کی بے ہوشی کے بعد وہ وجود تھوڑا حرکت میں آیا اور پھر وہ آدمی کھانستا ہوا اٹھ بیٹھا ۔ اس نے حیرت سے اپنے ارگرد دیکھا ۔ اس کی سانسیں تیز چل رہی تھیں اسی لیے اسے ماحول اور اردگرد کو سمجھنے میں دشواری ہورہی تھی ۔
" مم میں کہاں ہوں؟ یہ کونسی جگہ ہے ؟؟"
طرح طرح کے سوالات اس کے ذہن میں جنم لے رہے تھے ۔ کچھ دیر کی پیچیدگی کے بعد وہ اٹھ کر کھڑا ہونے کے قابل ہوگیا ۔ اس نے جزیرے کے اطراف میں نظر دوڑائی ۔ ہر طرف ریت کو پایا 
 گاہے بگاہے ناریل کے درخت بھی تھے ۔ دماغ پر تھوڑا زور ڈالنے پر اسے یار آگیا کہ وہ جہاز پر اگر کررہا تھا اور جہاز طوفان کی زد میں آگیا تھا ۔ بہت سے لوگ سمندر میں ڈوب گئے تھے اور بہت سے لوگ کشتیوں میں جہاز سے باہر نکل گئے تھے ۔ مگر اسے کسی کشتی میں پناہ نہ ملی اور اس نے خود کو قسمت پر چھوڑ دیا مگر قسمت اسے بچانا چاہتی تھی اور ہوں وہ اپنے بکسے پر لیٹا ہوا اس جزیرے تک آپہنچا ۔ اس نے گہری سانس لی ۔ اسے پیاس محسوس ہوئی تو وہ آگے ناریل کے درخت کی طرف بڑھا ۔ اس نے درخت کو سور سے دھکیلا تاکہ زور لگانے سے کوئی ناریل زمین پر گر جائے مگر بے سود ۔ شکل سے وہ بوڑھا دکھائی دیتا تھا تو اس کی بوڑھی ہڈیاں ناریل کو زمین پر نہ کرسکیں ۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی ۔ اس نے زمیں سے ایک پتھر اٹھایا اور ناریل کے درخت کے اوپر لگے پکے ناریل پر دے مارا ۔ ایک دم سے دو ناریل زمین پر آگرے ۔ وہ مسکرایا اور ناریل پکڑ لیے اور پانی پینے لگا ۔ پانی پیتے ہوئے اس کی نظر درخت کے پچھلی جانب ایک بڑے محل پر پڑی ۔ اس ویرانے میں جہاں ریتلی مٹی کے سوا کچھ نہ تھا وہاں ایک محل کا ہونا بہت عجیب بات تھی ۔ جہان دور دور تک انسان تو کیا چرند پرند کا گمان بھی نہیں تھا وہاں ایک ماحول اس کے لیے حیران کردینے والا تھا ۔تجسس نے اس کے پیروں کو قوت بخشی اور وہ اس محل کی طرف چلنے لگا ۔
 کچھ میل کا سفر طہ کرنے کے بعد وہ اس عالیشان محل تک جا پہنچا ۔ وہ فلک بوس انتہائی خوبصورت محل تھا جسے دیکھتے ہی وہ بوڑھا آدمی حیراں ہوئے بنا نہ رہ سکا ۔ وہ محل پرانا بھی نہیں تھا ہوں لگتا تھا جیسے اس محل کو بنے کچھ ہی دیر گزری ہو ۔ بالکل نیا اور جدید ۔ 
 محل کے صدر دروازے پر کوئی بھی سپاہی یا کوئی پہرے دار نہیں تھا اس بات نے بھی اس نے حیرت میں ڈال دیا تھا ۔ 
 " مجھے اندر جانا چاہیے یا نہیں "
 اس نے ایک لمحہ سوچا اور پھر صدر دروازے پر دستک دی ۔ مگر اس کی ہلکی سی دستک نے دروازہ کھول دیا ۔ اگلے لمحے محل کے اندر کا منظر دیکھ کر وہ چکرا کر رہ گیا ۔
 جاری ہے




Post a Comment

0 Comments